*چوبیسواں پارہ🌹فَمَنْ اَظْلَمُ🌹*
چوبیسواں پارہ تین حصوں پر مشتمل ہے، (۱) ”سورة الزُّمَر“ كا بقیہ حصہ، (۲) ”سورة المؤمن“مكمل، (۳) ”سورة حم السّجدة“ كا ابتدائی حصہ۔
سورة الزُّمر کی آخری (۴۴) آیات پر مشتمل ۵ رکوع، سورة المؤمن (۸۵)آیات پر ۹ رکوع، سورة حمّجدة کی ابتدائی (۴۶)آیات پر دو آیات پانچ رکوع چوبیسویں پارے میں۔
اس طرح چوبیسویں پارے میں مجموعی طور پر۔
*🌹پہلا حصہ –سورة الزُّمر، کی آخری ۴۴ آیات، (۳۲ - ۷۵) 🌹*
سورة الزُّمر اس نشان میں تین نکات نمایاں ہیں :
1۔ اللّٰہ کی ربوبیت كا بیان ۲۔ اللّٰہ کی رحمت کی وسعت کا بیان
۳۔ قیامت کے مختلف مناظر اور جنتیوں اورجہنمیوں کی اپنے ٹھکانوں میں داخلے کیفیت
*۱۔ اللہ کی ربوبیت کا بیان*
آسمان و زمین تمام کا خالق صرف اللّٰہ ہی اس قائل تمام انسان ۔
*۲۔ اللّٰہ کی رحمت کی وسعت کا بیان*
اللہ سبحانہ وتعالی اپنے بندوں پر خصوصی رحمت اور فضل و احسان کہ وہ مجرموں اور كافروں کو بھی توبہ كا دروازہ كھلا ركھتا اور آپ كو دعوت دیتا ہے كہ اللّٰہ كی طرف رجوع كرلو اس سورت میں اللّٰہ اپنے بندوں كو خطاب كرتے ہیں۔ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! آپ کو آپ اللّٰہ کی رحمت سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے ہیں، بے شک اللّٰہ آپ کو معاف کر دے گا۔ یقینًا وہ بےحد بخشنے والا، انتہائی مہربان ہے۔
*3.قیامت مختلف مناظر اور جنتیوں اور جہنمیوں کی اپنے ٹھکانوں میں داخلے کی کیفیت*
اس سورت قیامت کے مختلف مناظر کے بیان پر اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں آپ کو پھونکا جاؤں گا، اللہ آپ کے سامنے پیش ہوں گا، زندگی کا حساب ہو گا پھر جہنمیوں کو کونچ کر کے راستے پر لے جائیں گے۔ جایا جائے گا، اور اہل تقویٰ کو جنت میں داخلے کی دعوت دی جائے گی، ان کا استقبالیہ کراتے ہوئے سلام پیش کریں گے اور وہ اللہ کی حمد کراتے ہوئے اپنی جگہ گاہوں میں تشریف فرما ہوں گے ۔
* 🌹دوسرا حصہ –سورة المؤمن،مكمّل .... آیات 🌹*
سورة المؤمن میں جوبات بیان کی گئی ہیں ان کو ہم چار نکات میں بیان کرسکتے ہیں:
1۔ موسی علیہ السلام کے قتل کی سازش کے موقع پر مؤمن آل فرون كا بیان
۲۔ فرعون خوا کبر وغرور کی صورت حال ۳۔ اللہ سے اعراض کرنے والے کی سزا کا بیان
۴۔ مٹی سے مٹی تك انسانی زندگی کےسفر كا بیان
*۱. موسی علیہ السلام كے قتل كی سازش كے موقع پر مؤمن آل فرعون كا بیان*
مؤمن آل فرعون یعنی آل فرعون میں سے ایك شخص جس نے اپنا ایمان چھپایا ہوا تھا اس كا فرعون سے مكالمہ نقل كیا گیا ہے جب موسی علیہ السلام كے قتل كے لیے سازش فرعون كے دربار میں ہو رہی تھی ، اس نے كہا: ((أتقتلون رجلًا أن یقول ربّی اللہ )) یعنی تم لوگ ایك شخص كے قتل كے صرف اس لیے در پے ہو كہ وہ كہتا ہے كہ میرا رب اللہ ہے۔ اسی طرح اپنی مزید گفتگو میں اس مؤمن نے فرعون اور اس كے درباریوں كو موسی علیہ السلام كے قتل سے ڈرایا اور كہا كہ اس كا انجام بہت برا ہو گا ۔
*۲. فرعون كے كبر وغرور كی صورت حال*
فرعون كے تكبر اور غرور كا بیان ہے كہ اس نے اللہ تعالی كے وجود كو نا قابل یقین تصور كرتے ہوئے اپنے وزیر ھامان كو ایك محل كی تعمیر كا حكم دیا كہ موسی جو دعوی كرتے ہیں اس كو دیكھ لیتے ہیں۔
*۳. اللہ سے اعراض كرنے والوں كی سزا كا بیان *
اس سورت میں اللہ سے اعراض كرنے والوں كی سزا كا بیان ہے كہ وہ ((سیدخلون جھنم داخرین)) ذلیل خوار ہو كر جہنم میں داخل ہوں گے۔
۴. مٹی سے مٹی تك انسانی زندگی كے سفر كا بیان *
انسان كی تخلیق كا بیان آیا ہے كہ وہ اپنی اصل میں مٹی تھا پھر نطفہ بنا پھر علقہ بنا پھر ایك بچے كے طور پر اس كی پیدائش ہوئی پھر جوان ہوتا ہے ، پھر بوڑھا یہاں تك كہ مر جاتا ہے، تو گویا یہ مٹی سے مٹی تك كا سفر بیان ہوا ہے ۔
*🌹 تيسرا حصہ –سورة حم السّجدة ،كی ابتدائی.... آیات ،(...) 🌹*
سورة حم السجدة كے اس حصے میں كئی باتیں ہیں ان میں سے چار نكات نمایاں ہیں :
۱. قرآن مجید كے نزول كا ذكراور اس سے اعراض كرنے والوں كی بد بختی
۲. مشركین كے كفر و شرك پر تعجب كا اظہار اور اللہ كی عظمت و جلال كا ذكر
۳. متكبرین اور منكرین كے مقابلے میں مخلص مؤمنین كا تعارف
۴. داعی كا مقام اور اس كا دعوتی اسلوب
*۱. قرآن مجید كے نزول كا ذكراور اس سے اعراض كرنے والوں كی بد بختی*
اس سورت كا آغاز بھی قرآن مجید كے ذكر سے ہوتا ہے كہ یہ كتاب اس ہستی كی طرف سے نازل ہوئی ہے جو بے حد مہربان اور انتہائی رحم كرنے والا ہے ، اس كتاب كے احكام اور معانی، مضامین اور مقاصد، وعدے اور وعیدیں سب بالكل واضح ہیں ان میں كوئی ابہام نہیں ہے لیكن اس وضاحت كے باوجود بہت سارے لوگ اپنی كم بختی سے اس سے اعراض كرتے ہیں اور اس میں ڈھیٹ پن كا ثبوت دیتے ہیں۔
*۲. مشركین كے كفر و شرك پر تعجب كا اظہار اور اللہ كی عظمت و جلال كا ذكر *
اس سورت میں مشركین كے كفر و شرك پر تعجب كا اظہار ہے جو اللہ كی عظمت و جلال كا مشاہدرہ كرنے كے باوجود ان كا انكار كرتے ہیں ، لہذا یہاں ان آثار كا ذكر ہے جو اللہ كی عظمت اور جلال كے واضح نمائندہ ہیں ساتھ ہی عاد و ثمود كے انكار اور انجام كا بھی ذكر كیا گیا ہے ان كی قوت اور مادی صلاحیتیں سب سامنے لائی گئی ہیں كہ كوئی چیز بھی ان كے كام نہیں آئی۔
*۳. متكبرین اور منكرین كے مقابلے میں مخلص مؤمنین كا تعارف*
متکبرین اور منکرین کے مقابلے میں مخلص مؤمنین کا نمایاں ترین وصف ایمان پر استقامت ہے، جب کہ ہم نے ایك بار اللہ کو اپنا رب کہا تو اب وہ زندگی بھر اپنے اس قول وقرار پر جم گئے، اصحاب استقامت كو جنت میں ٹھكانا دے كر كہا کیا جائے گا تم یہاں زندگی گزارو، بدلہ اس کاکہہ تم دنیا میں زندگی گزارو۔
*۴۔ داعی كا مقام اور اس كا دعوتی اسلوب*
اصحاب استقامت میں بھی وہ لوگ اللہ کے ہاں سب سے معزز اور قابل تحسین ہیں جو اخلاص اور حكمت آپ کے ساتھ اللہ کی طرف سے اشارہ کرتے ہیں اور اس راہ کی مشكلات كو رضائے الہی رضائے الہی سے برداشت كرتے ہیں۔
تحریر کے بارے میں اپنی رائے بھیجیں