تحریر: پروفیسر ڈاکٹر عبدالماجد ندیم
جامعہ پنجاب لاہور
بارھواں پارہ🌹وَمَا مِنْ دآبَّةٍ🌹
اس پارے کا خلاصہ ہم دو حصوں میں پڑھیں گے ، (۱) ”سورة ھود“ کا بقیہ حصہ، (۲) ”سورة یوسف“کا ابتدائی حصہ
گزشتہ پارہ ”یَعْتَذِرُوْنَ“ میں ”سورة ہُود “ کی مجموعی۱۲۳آیات میں سے ۵ آیات آئی تھیں، لہذا اس کی بقیہ۱۱۸آیات بارھویں پارہ ”وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ“ میں ہیں ۔ پھر مصحف کی ترتیب سےبارھویں سورت ” سورة یوسف“ جس میں۱۱۱ آیات ہیں ، کی آیت نمبر۵۲تک یہ پارہ مکمل ہو جاتا ہے۔
بارھویں پارے کا پہلا حصہ ”سورة ہود“ کی آخری۱۱۸ آیات ( دس رکوعوں میں ) اور دوسرا حصہ ”سورة یوسف کی ابتدائی ۵۲ آیات (تین آیات زائد چھے رکوعوں میں ) پر مشتمل ہے ، اس طرح اس پارہ میں مجموعی طور پر آیات کی تعداد ۱۷۰ہے جو کہ تین آیات زائد سولہ رکوع بنتے ہیں۔
🌹پہلا حصہ –سورة ہود کی ۱۱۸ آیات (آیت 06-123) 🌹
سورة ھود میں چار نکات نمایاں ہیں :
۱. توحید کی دعوت اور دلائل
۲. قرآن مجید کا چیلنج
۳. انسانیت کی بنیادی دو قسمیں
۴. منکرین و مشرکین کی تردید کے لیے تاریخی دلائل
۵. قیامت کا تذکرہ
۱. توحید کی دعوت اور دلائل
کتاب اللہ کی عظمت کے بیان کے بعد توحید کی دعوت اور آفاقی دلائل دیے گئے ہیں ، کہ آسمان و زمین کا خالق اللہ تعالی ہے اور ساری مخلوق چاہے انسان ہو یا جن، چوپائے ہوں یا پرندے ، پانی میں رہنے والی مخلوق ہو یا زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے، سب کو رزق دینے والا اللہ ہے۔
۲. قرآن مجید کا چیلنج
جو لوگ قرآن کو اللہ کا کلام ماننے سے انکار کرتے ہیں ان کو چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر واقعی قرآن انسانی کاوش ہے تو تم بھی اس جیسی دس سورتیں بنا کر لے آؤ ۔ [منکرین کو قرآن مجید کی طرف سے تین بار چیلنج دیا گیا تھا، پہلی بار پورے قرآن کی مثال لانے ،دوسری بار قرآن جیسی دس سورتیں اور تیسری بار سورة بقرة میں قرآن کریم جیسی صرف ایک سورت بنا کر لانے کا چیلنج دیا گیا تھا، لیکن ہر بار وہ اس چلینج کو قبول کرنے سے عاجز رہے۔[
۳. انسانیت کی بنیادی دو قسمیں اور ان کی مثال
اس میں بیان کیا گیا ہے کہ انسانوں کے دو گروہ ہیں:
پہلا گروہ وہ ہے جن کی زندگی اور جہد و عمل کا ہدف صرف دنیا ہے، ہر وقت اسی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ بنانےکی فکر میں لگے رہتے ہیں اور کبھی بھولے سے بھی انھیں آخر یاد نہیں آتی۔ دوسرا توفیق یافتہ گروہ ہے جو دنیا کے لیے بھی تگ و دو کرتا ہے مگر اس کی کوششوں کا محور آخرت ہے، وہ اخروی زندگی ہی کو سامنے رکھ کر دنیا کی زندگی گزارتا ہے ، پہلے گروہ کی مثال اندھوں اور بہروں جیسی ہے اور دوسرے گروہ کی مثال دیکھنے اورسننے کی نعمت سے سرفراز لوگوں جیسی ہے۔
۴. منکرین و مشرکین کی تردید کے لیے تاریخی دلائل
رسالت کے اثبات اور منکرین و مشرکین کی تردید کے لیے اس حصے میں سات انبیائے کرام علیھم السلام کے واقعات آئے ہیں:
(۱) حضرت نوح علیہ السلام : ان کی قوم ایمان نہیں لائی سوائے چند کے ، انھوں نے اللہ کے حکم سے کشتی بنائی ، ایمان والے اس پر سوار ہو کر محفوظ رہے باقی سب غرق ہو گئے۔
(۲) حضرت ھود علیہ السلام: ان کی قوم میں سے جو ایمان لائے وہ کامیاب ہوئے باقی سب پر انتہائی تیز طوفانی ہوا کی صورت میں اللہ کا عذاب آیا اور وہ سب ہلاک کر دیے گئے۔
(۳) حضرت صالح علیہ السّلام: ان کی قوم بھی منکر رہی پھر ان کی ایک فرمائش پر اللہ تعالی نے پہاڑ کی ایک چٹان سے ایک حاملہ اونٹنی نکالی، حضرت صالح علیہ السلام نے اس کے بارے میں محتاط رہنے کا کہا مگر قوم نے اسے مار ڈالا ، ان پر بھی اللہ کا عذاب نازل ہو ا۔
(۴) حضرت ابراہیم علیہ السّسلام: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کو اللہ نے بڑھاپے کی حالت میں بیٹا اسحاق (علیہ السلام) عطا فرمایا پھر ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام ہوئے۔
(۵) حضرت لوط علیہ السلام: آپ کی قوم کے لوگ انتہائی بد کار تھے ، ہم جنس پرستی کی طرف مائل تھے ، ان کے مرد عورتوں کے بجائے لڑکوں کی طرف مائل ہوتے تھے ، کچھ فرشتے خوب صورت جوانوں کی شكل میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے ، ان کی قوم کے بد کارلوگ بھی وہاں پہنچ گئے، حضرت لوط علیہ السلام نے انھیں سمجھایا کہ قوم میں جو لڑکیاں ہیں انھیں سے شادی کر کے عفت کی زندگی گزارو، مگر انھوں نے نہ صر ف انکار کیا بلکہ حضرت لوط علیہ السلام کی اس نصحیت کو بے جا مداخلت قرار دیا ، ان پر اس طرح اللہ کا عذاب نازل ہوا کہ اس بستی کو زمین سے اٹھا کر الٹا دیا گیا اور ان پر پتھروں کی بارش ہوئی۔
(۶) حضرت شعیب علیہ السلام: ان کی قوم کے لوگ ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جنھوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی اطاعت کی وہ بچ گئے، جب کہ نافرمان لوگ عذاب الہی كا شکار ہوگئے۔
(۷) حضرت موسی علیہ السّلام : فرعون نے ان کی بات نہ مانی، اللہ نے اسے اور اس کے لشکر کو ناکام کر دیا ۔
ان واقعات میں ایک طرف تو عقل، فہم اور سمع و بصر والوں کے لیے بے پناہ عبرتیں اور نصیحتیں ہیں اور دوسری طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مخلص اہلِ ایمان کے لیے تسلی اور ثابت قدمی کا سامان اور سبق ہے ، اسی لیے یہ واقعات بیان کرتے ہوئے آپ کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے جو کہ حقیقت میں پوری امت کو حکم ہےکہ پوری زندگی ان تعلیمات کے مطابق گزاری جائے جن کے مطابق گزارنے کا اللہ نے حکم دیا ہے ۔
۵. قیامت کا تذکرہ
روزِ قیامت انسانوں کی دو مختلف قسموں کا نتیجہ بھی مختلف ہو گا :
(۱) بد بخت لوگ ، جو کفر کی حالت میں ہی مرے، ان کے لیے ہولناک عذاب ہو گا جب تک اللہ چاہے گا ۔
(۲) نیک بختوں کے لیے اللہ نے جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کی بے حساب نعمتیں رکھی ہیں۔
🌹دوسرا حصہ –سورة یوسف کی ۵۲ آیات (آیت 01-52) 🌹
تمام انبیائے کرام کے قصّے قرآن مجید میں پھیلے ہوئے ہیں ، مگر حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ پورا کا پورا صرف اسی سورت میں ہے ، اور پوری تفصیل کے ساتھ آیا ہے ۔دوسری سورتوں میں ان کا نام اور حوالہ تو آیا ہے مگر قصہ کا کوئی حصہ بھی کہیں نہیں ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے میں ایک بنیادی پہلو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زندگی سے بہت زیادہ مشابہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے حسد کی وجہ سے ان کے مقام کو نہیں پہچانا ور انھیں اپنے سے دور کرنے کے لیے کنویں میں پھینک دیا یہاں تک کہ آپ علیہ السلام مصر پہنچے پھر اللہ تعالی نے وہ وقت دکھایا کہ بھائی ان کے مرہون منت ہو کر رہ گئے ۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بھی ان کے قریشی بھائیوں نے حسد کا معاملہ کیا آپ کی نبوت و رسالت کا انکار کیا اور مکہ سے دور جانے پر مجبور کر دیا آپ علیہ السلام نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور بامر مجبوری کچھ دن غار ثور میں قیام کرنا پڑا ۔اور بالآخر اپنے ہم قبیلہ و ہم علاقہ لوگ اپنی زندگی کی بقا کے لیے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرہون منت ہوئے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کی معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا: ”لا تثریب علیکم الیوم“ یعنی آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ۔ حضور اکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جب اہل مکہ کے لیے معافی کا اعلان کیا تو فرمایا: میں تم سے وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے کا خلاصہ:
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، حضرت یوسف علیہ السلام ان میں سے خصوصی طور پر اپنے والد کی محبت سے سرشار تھے ، ایک مرتبہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے، چاند اور سورج مجھے سجدہ کر رہے ہیں، انھوں نے اپنے والِد گرامی کو یہ خواب سنایا ، تو والد نے حضرت یوسف علیہ السلام کویہ بشارت بھرا خواب اپنے بھائیوں کو سنانے سے منع کیا ، بھائی حضرت یوسف سے حسد میں مبتلا تھے ، وہ تفریح کے بہانے حضرت یوسف علیہ السلام کو جنگل میں لے گئے اور آپ کو کنویں میں ڈال دیا ، اور ابا جی کو جھوٹ میں کہہ دیا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے ۔
جنگل سے ایک قافلہ گزرا، انھوں نے پانی نکالنے کے لیےکنویں میں ڈول ڈالا تو اندر سے خوب صورت بچہ نکلا ، قافلے والوں نے مصر جا کر بیچ دیا ، عزیزِ مصر نے خرید کر اپنے گھر میں رکھ لیا ، جوان ہوئے تو عزیز مصر کی بیوی نے آپ پر فریفتہ ہو کر بُرائی کی دعوت دی، اور بھر پور کوشش کی مگر آپ اس کی اس کوشش سے بھاگ كھڑے ہوئے ،اسی دوران اس کا خاوند سامنے آ کھڑا ہوا تو اس نے آپ پر الزام لگایا اسی طرح اس معاشرے کے بڑے رتبے والے لوگوں کی بیویوں نے بھی اکٹھے ہو کر حضرت یوسف کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کی مگر آپ علیہ السلام ان سے بچ گئے ، بدنامی کی خاطر آپ علیہ السلام کو جیل میں ڈلوادیا گیا ، قید خانے میں بھی آپ نے دعوتِ توحید کا سلسلہ جاری رکھا، جیل کے قیدی آپ کی شخصیت سے متأثر تھے ، اور یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ آپ خوابوں کی تعبیر کے عالم ہیں ، بادشاہِ وقت کو عجیب و غریب خواب آیا تو معلوم ہونے پر اس نے آپ کے پاس خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے نمائندہ بھیجا آپ نے خواب کی صحیح تعبیر بتائی اور ساتھ ہی تدبیر بھی سمجھائی بادشاہ آپ سے بہت متأثر ہوا اور آپ کو اپنے پاس بلوایا مگر آپ نے انکار کر دیا کہ جب تک میرے معاملے کی مکمل انکوائری نہیں کروا لیتے میں اس وقت تک جیل سے باہر نہیں آؤں گا ، بالآخر ثابت ہوا کہ آپ کو بے قصور جیل میں ڈالا گیا تھا ، عزیز مصر اور تمام عورتوں نے آپ کی عفت کی گواہی دی ۔
اس پر بارھواں پارہ مکمل ہوتا ہے قصے کے باقی حصے کا خلاصہ، إن شاء اللہ، تیرھویں پارے میں پڑھیں گے۔
تحریر کے بارے میں اپنی رائے بھیجیں