تحریر: پروفیسرڈاکٹر عبدالماجد ندیم
جامعہ پنجاب لاہور
آٹھواں پارہ 🌹وَلَوْ اَنَّنَا🌹
یہ پارہ تقریبًا دو برابر حصوں میں تقسیم ہے ، (۱) ”سورة الأنعام“ کا بقیہ حصہ، (۲) ” سورة الأعراف “ کا ابتدائی حصہ
گزشتہ پارہ ” وإذا سمعوا “ میں ” سورة الأنعام “ کی مجموعی آیات ۱۶۵ آیات میں سے ۱۱۰ آیات آئی تھیں، لہذا اس کی بقیہ ۵۵ آیات آٹھویں پارہ ” وَلَوْ اَنَّنَا “ میں ہیں ۔ پھر مصحف کی ترتیب سے ساتویں سورت ” سورة الأعراف “ بھی اسی آٹھویں پارے سے شروع ہوتی ہے اور اس کی آیت نمبر۸۷ تک یہ پارہ مکمل ہو جاتا ہے۔
آٹھویں پارے کا پہلا حصہ ” سورة الأنعام“ کی آخری ۵۵ آیات (سات رکوعوں میں ) اور دوسرا حصہ ” سورة الأعراف “ کی پہلی ۸۷ آیات ( دس رکوعوں تین آیات زائد میں) ہیں ، اس طرح اس پارہ میں مجموعی طور پر آیات کی تعداد ۱۴۲ ہے جو کہ تقریبًا سترہ رکوعوں میں ہیں۔
🌹پہلا حصہ –سورة الأنعام کی آخری۵۵ آیات (آیت 111-165) 🌹
سورة الأنعام کے بقیہ حصّے میں تین باتیں ہیں:
۱. مشرکین کی ہٹ دھرمی کے مقابلے پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلّی
۲. حرام و حلال کے حوالے سے تاکید کہ یہ اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے
۳. تمام آسمانی شریعتوں کی دس متفقہ وصیّتیں
*۱. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلّی*
گزشتہ پارے کے تسلسل میں اس سورت کے ابتدائی حصے میں بھی رسو ل اللہ صلي اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلّی دی گئی ہے، ضدّی كافروں کے نِت نئے اور من مانے معجزات کے مطالبے سامنے آ رہے تھے ، ان میں یہ بھی تھا کہ ہمارے آبا و اجداد کو زندہ کریں اگر وہ ہمیں کہہ دیں گے تو ہم مان جائیں گے ، تو اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ اگر مردے بھی ان سے باتیں کریں تو یہ پھر بھی ایمان نہ لائیں گے، اگر ان کی فطرت اپنی سلامتی پر ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو معجزات اور خاص طور پر جو قرآن کا معجزہ دیا گیا ہے ، ایمان لانے کے لیے کافی ہے۔لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان نہ ہوں، ہر نبی کے ساتھ شیاطین کا یہی رویہ رہا ہے ، یہ شیطان انسان بھی ہوتے ہیں اور جنّ بھی۔
اسی ضمن میں مؤمن کی مثال پیش کی گئی ہے، ”مؤمن کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو زندہ ہے اور اسے ہم نے نور عطا کیا ہے اور کافر کی مثال اس شخص جیسی ہے جو مردہ ہے اور تاریکیوں میں پھنسا ہوا ہے ۔
اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا کہ ان کی یہ آزادی اور اختیار جس کا وہ غلط استعمال کر رہے ہیں یہ چند روزہ ہے، قیامت کے روز اللہ تعالی ان سب کو جمع کرےگا پھر ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دے گا۔
اس کےبعد ان کی حماقتوں کا ذکر فرمایا:
*۲.حرام و حلال اور مختلف معاشرتی تصورات کے ضمن میں وضاحت کہ یہ اللہ کی ہدایات کی روشنی میں ہونے چاہییں ان کو نظر انداز کرنے کی صورت میں انسان طرح طرح کی حماقتوں کا شکار ہو جاتا ہے اس سلسلے میں مشرکین کی چار حماقتوں اور دو نعمتوں كا بیان*
مشرکین ، چونکہ اللہ تبارک وتعالی کے نازل شدہ دین پر نہ تھے، انھوں اپنے خیالات ، اوہام اور مزاج کی بنیاد پر حماقت کی حد تک خرافات پیدا کر لی گئی تھیں ، ان حماقتوں کو انھوں نے اپنی دین داری کا نام دیا ہوا تھا، ان میں سے چار حماقتوں کا خصوصی طور پر اس حصے میں ذکر آیا ہے:
(۱) یہ لوگ چوپایوں میں اللہ تعالی کے حصے کے ساتھ ساتھ شرکا کا بھی حصہ نکالتے ، اس سلسلے میں شرکا کا حصہ تو اللہ تعالی کے حصّےمیں خلط نہ ہونے دیتے ، لیکن اگر اللہ تعالی کے نام سے نکالا ہوا حصہ شرکا کے حصّے میں مل جاتا تو بُرا نہ سمجھتے ۔
(۲) ان مشرکین میں سے کئی ایک فقر یا عار کے خوف سے بیٹیوں کو قتل کر دیتے ۔
(۳) انھوں نے چوپایوں کی کچھ قسمیں کر رکھی تھی: ایک قسم وہ تھی جو کاہنوں اور مذہبی پیشواؤں کے لیے مخصوص تھی ،اور کچھ خاص قسم کے جانوروں کے بارے میں یہ طے کیا ہوا تھا کہ ان پر سوار ہونا اور ان س ےکسی بھی طرح کا فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے، اور ایک قسم وہ تھی جسے ذبح كرتے وقت اللہ کے بجائے بتوں کے نام لیتے تھے۔
(۴)چوپائے کے پیٹ سے جو زندہ بچہ پیدا ہوتا تو اسے عورتوں کے لیے حرام سمجھتے اور اگر وہ بچہ مردہ ہوتا تو مرد اور عورتیں دونوں کے لیے اسے حلال سمجھتے تھے ۔
ان حماقتوں کے ذکرکے بعد ان مشرکوں کو یاد دلایا گیا کہ یہ تمام نعمتیں اللہ تعالی کی دی گئی ہیں (جس کا لازمی تقاضا ، ان کو اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایات کی روشنی میں استعمال کرنا بنتا ہے نہ کہ اپنے اوہام و خرافات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنا)
اس سلسلے میں یہ وضاحت کہ نباتات و حیوانات سب کی تخلیق اللہ نے کی ہے انسان کے فائدے کے لیے؛ نباتات کا ذکر كرتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ باغات ، زیتون اور انار جیسے مختلف پھلی اسی اللہ نے پیدا کیے ہیں ، اور حیوانات کے ضمن میں بتایا کہ باربرداری ، گوشت اور دودھ کے حصول کے یے چھوٹے اور بڑے جانور بھی اسی اللہ نے پیدا کیے ۔
*۳. تمام آسمانی شریعتوں کی دس متفقہ وصیتیں*
اس حصے کا ایک خاص پہلو وہ دس نصیحتیں ہیں جو تمام امتوں میں مشترک رہی ہیں غالبًا یہ وہی ہیں جنھیں بائبل میں Ten Commandmentsکا نام دیا گیا ہے :
(۱) اللہ تعالی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
(۲) ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائےانھیں اپنی زبان و عمل تکلیف نہ دی جائے۔
(۳) اولاد کو فقر کے ڈر یا کسی عار کے خوف سے قتل نہ کیا جائے۔
(۴)ہر قسم کی بے حیائی اور برائی سے بچا جائے۔
(۵) نا حق قتل نہ کیا جائے ۔
(۶) یتیموں کے مال میں ناجائز تصرف نہ کیا جائے ۔
(۷) ناپ تول پورا رکھا جائے۔
(۸) بات کرتے وقت عدل کو مدّ نظر رکھا جائے خواہ کوئی اپنا قریبی ہو یا دشمن۔
(۹) اللہ تعالی کے عہد کو پورا کیا جائے۔
(۱۰) صراط مستقیم ہی کی اتباع کی جائےمختلف راستوں کو اختیار کرنے سے احتراز کیا جائے۔
ان دس وصیتوں کے بعد وہ مشہور آیت ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ آپ یہ اعلان کر دیجیے کہ مجھے اللہ نے دین حق کی ہدایت دی ہے ، یہی ابو الأنبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دین تھا اور یہ کہ میری نماز اور جملہ عبادات سارے افعال و اعمال خالص اللہ کے لیے ہیں، میں ان اعمال سے اللہ کی رضا چاہتا ہوں۔
سورت کا اختتام اس بات پر ہوا کہ یہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے یہ سب آزمائش کے لیے ہے تاکہ مؤمن،کافر اور نیک و بد میں فرق ہو جائے۔
*🌹دوسرا حصہ –سورة الأعراف کی ابتدائی ۸۷ آیات (آیت 01- 87) 🌹*
آٹھویں پارے کا دوسرا حصہ ، سورہ اعراف کی ابتدائی ۸۷ آیات ہیں یہ بھی مکی سورت ہے لہذا اس میں بھی بنیادی عقائد توحید، رسالت اور آخرت کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔اس ضمن میں چار نکات ہمارے پیش نظر ہیں:
۱. اللہ تعالی کی نعمتیں ، ۲. جنتی اور جہنمیوں کا مکالمہ
۳. اللہ تعالی كی قدرت کے دلائل ۴. پانچ انبیا اور ان کی قوموں کے قصے
*۱. اللہ تعالی کی نعمتوں کا بیان اور شیطان کی چالوں سے بچنے کی تلقین*
اللہ تعالی کی چار نعمتوں کا خصوصی ذکر: (۱) قرآن کریم کا نزول (۲) انسانی برادی کا وجود، (۳) تمکین فی الأرض، (۴) انسان کو مسجودِ ملائکہ بنایا
انسان کی تخلیق کے بعد اس کے مقام ِ خلافت کے خلاف حسد کی آگ سے بھڑکنے والے، سجدے سے انکار کر دینے والے شیطان کے مکر و فریب سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے ۔جو انسان کو گمراہ کرنے کے لیے ہر راستے پر بیٹھا ہوا اور قیامت تک اس کے مکر وفریب کے جال بچھانے کاسلسلہ جاری رہے گا۔
*اسی تسلسل میں اللہ تبارک وتعالی نے مسلسل چار بار انسانوں کو ”یا بنی آدم “ کے صیغہ سے خطاب کیا ہے، یہ سورة الأعراف کی ایک قابل ذکر خصوصیت ہے*
پہلی دو نداؤں میں لباس کا ذکر ہے تیسری ندا میں اسراف فضول خرچی سے بچنے کا حکم اور مساجد و نماز میں لباس کے اہتمام کا ذكر ہے ، اس ضمن میں اللہ تعالی نے مشرکین پر یہ رد بھی کیا کہ تمھیں ننگے ہو کر طواف کرنے کو اللہ تعالی نے نہیں کہا جیسا کہ ان کا دعوی تھا۔ چوتھی ندا میں اللہ تعالی نے اتباع رسول کی ترغیب دی ہے اور ساتھ ہی تقوی و اصلاح کے اچھے انجام کا ذکر کیا ہے۔
*۲. جنتیوں ، دوزخیوں اور اصحاب الأعراف کے درمیان مکالمے*
اس سورت میں بتایا گیا ہے کہ ضد اور عناد، کفر و استکبار کی راہ اپنانے والوں کا ٹھکانہ جہنم کے سوا کچھ نہیں، اور تسلیم و انقیاد اور ایمان و اطاعت کی راہ پر چلنے والے جنت کے حق دار ہوں گے ، یہ دونوں گروہ جب اپنے ٹھکانوں یعنی جنت اور جہنم میں پہنچیں گے تو ان کے درمیان مکالمہ ہو گا : ”جنتی دوزخیوں سے پوچھیں گے: ”کیا تمھیں اللہ تعالی کے وعدوں کا یقین آ گیا ؟“، جہنمی اقرار کریں گے،اسی طرح دوزخی جہنم کی ہولنا ک گرمی اوربھوک پیاس سے بے حال ہو کر جنتیوں کے سامنے دست سوال دراز کریں گے کہ ہمیں کچھ کھانے اور پینے کو دو مگر جنتی ان سے کہیں گے : ”اللہ تعالی نے کافروں پر اپنی نعمتیں حرام کر دی ہیں۔“
ایک تیسرا گروہ جسے قرآن نے ”اصحاب الأعراف “ کا نام دیا ہے ، یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ تو جنت کے حق دار ٹھہرے اور نہ ہی دوزخ کے ، ان کا فیصلہ مؤخر کر دیا جائے گا ، ان کا بھی دوزخیوں کے ساتھ مکالمہ ہوگا ۔
ان مکالموں کے بعد اللہ تعالی کی قدرت اور توحید کے مختلف دلائل بیان کیے گئے ہیں ۔
*۳. اللہ تعالی کی قدرت کے دلائل*
اللہ تعالی کی قدرت کے مختلف دلائل آئے ہیں ، مثلًا: (۱) تہ بہ تہ سات آسمان جن میں سسے ہر ایک دوسرے کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے قبہ ہوتا ہے ، یہ ساتوں آسمان اس وسعت و عظمت کے باوجود کسی ستون کے بغیر کھڑے ہیں ۔ (۲) رحمٰن کا وسیع و عریض عرش، (۳) رات اور دن کا نظام، (۴) چمکتے شمس و قمر اور ستارے، (۵) ہوائیں اور بادل، اور (۶) زمین سے نکلنے والی نباتات
*۴. پانچ انبیا اور ان کی قوموں کے قصّے*
اللہ تعالی کی توحید و قدرت کے دلائل کے بعد آٹھویں پارے کے باقی حصے میں پانچ انبیائے کرام یعنی (۱) حضرت نوح، (۲) حضرت ھود، (۳) حضرت صالح، (۴) حضرت لوط، اور (۵) حضرت شعیب، علیھم السلام کی قوموں کے قصے مختصر انداز میں بیان ہوئے ہیں ۔ ان قصوں میں مشترکہ طور پر جو مختلف حکمتیں اور عبرتیں ہمارے سامنے آتی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: (۱) رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم کو مخالفین کی دی گئی تکلیفوں پر تسلی ، (۲) اچھوں اور بروں کے انجام کی وضاحت اور یہ کہ اللہ تعالی کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، ظالموں کو بالآخر ان کے کیے کی سزا مل کے رہتی ہے ، (۳) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلي آلہ وسلم کی نبوت کے دلائل کہ آپ امّی ہونے کے باوجود تاریخ کے گم شدہ اوراق، حقیقت کے مطابق پیش فرماتے ہیں ۔ (۴) انسانیت کے لیے عبرت و نصیحت کا سامان ۔
تحریر کے بارے میں اپنی رائے بھیجیں